Orhan

Add To collaction

سنگ مر مر

سنگ مر مر
 از قلم اسامہ رحمن مانی 
قسط نمبر14

سر فیصل کے فنگر پرنٹس لیے گئے ہیں۔۔۔گن پر سے لیے گئے فنگر پرنٹس سے میچ نہیں ہوئے۔۔۔اب کیا کریں گے۔۔۔ وہ تو صاف بچ جائے گا۔۔۔کانسٹیبل نے گھبرائے ہوئے لہجے میں اطلاع دی۔۔۔
او نہیں او اکرم علی۔۔۔ایسے کیسے بچ جائے گا۔۔۔
ٹھیک ہے قتل اس نے نہیں کیا۔۔۔لیکن اس نے کروایا نہیں ہے۔۔۔اس بات کی کیا گارنٹی ہے؟۔۔۔انسپکٹر ہاتھ نچاتے ہوئے بولا۔۔۔
سر کرایا تو عمیر نے ہے۔۔۔ 
یہ سن کر انسپکٹر نے ایک بار پھر قہقہہ لگایا۔۔۔ تو پتہ نہیں پولیس میں کر کیا رہا ہے۔۔۔تیرے دماغ میں بھوسا بھرا ہے کیا۔۔۔ یہ کیس اتنا آسان نہیں ہے جتنا تو سمجھ رہا ہے۔۔۔ اچھا خیر۔۔۔تو اتنی مت ٹینشن لے کیس کی۔۔۔میں خود دیکھ لوں لگا۔۔۔ ابھی تُو جا۔۔۔
___________________________
سلیم اختر اپنے تئیں تمام کوششیں کر چکے تھے۔۔۔لیکن ایمان کو تلاش نہیں کر پائے تھے۔۔۔
اب تو انہیں بھی یقین آ گیا تھا کہ ایمان اور فیصل ایسی جگہ گئے ہیں جہاں کوئی بھی ڈھونڈ نہ سکے۔۔۔
___________________________
وہاں بند کمرے میں پڑے ایمان کو دو ہفتے ہو گئے تھے۔۔۔
رات کا وقت تھا۔۔۔قریباً ڈیڑھ دو بجے ہوں گے۔۔۔ آج اسی شخص نے جو روزانہ روٹی لے کر آتا تھا، اندر داخل ہو کر ایمان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور اس کو گاڑی میں بٹھا کر لے جانے لگا...
جانے کیسے وہ دو ہفتے اس نے وہاں گزارے تھے۔۔۔ایک بات تو ثابت ہوئی تھی کہ وہ نہایت مضبوط اعصاب کی مالک لڑکی تھی جس نے وہاں نہ صرف روز کی ایک سوکھی روٹی پر دو ہفتے گزار دیے تھے۔۔۔بلکہ اس شدید گرمی میں بنا بجلی پنکھے، اور کھڑکی کے وہاں گزارا کیا تھا۔۔۔یہ بات تو یقینی تھی کہ اگر کوئی اور اس کی جگہ ہوتا تو اس ماحول میں اس کا ذہنی توازن ہی بگڑ جاتا۔۔۔
وہ گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی اور اس کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے۔۔۔آنکھوں پر پٹی ہونے کی وجہ سے وہ کچھ دیکھ نہ سکتی تھی کہ وہ کہاں جا رہی ہے۔۔۔
کچھ دیر بعد گاڑی رکی اور اسی شخص نے گاڑی سے اتار کر اس کے ہاتھ کھول دیے۔۔۔پھر فوراً ہی گاڑی بھگا لے گیا۔۔۔
ایمان حیران تھی کہ انہوں نے اس کو یوں اچانک چھوڑ کیسے دیا۔۔۔
اس نے ڈرتے ڈرتے آنکھوں پر سے پٹی ہٹائی تو معلوم ہوا کہ وہ اپنے گھر کے قریب ہی تھی۔۔۔
وہ گھر کی جانب دیوانہ وار بھاگتی ہوئی جا رہی تھی۔۔۔
کچھ دیر میں وہ گھر پہنچ گئی۔۔۔
اس نے بیل بجائی تو کچھ دیر بعد سلیم اختر نے دروازہ کھولا اور اسے دروازے پر پا کر ششدر رہ گئے۔۔۔
پوری ہو گئی محبت۔۔؟۔۔۔
یہ جملہ ایمان کے سینے میں تیر کی مانند لگا۔۔۔
اب کہاں آئی ہو۔۔۔یہاں سے تم اپنی مرضی سے گئیں تھیں نا۔۔۔
ابا۔۔۔ اس نے صرف اتنا کہا تو سلیم اختر چلایا۔۔۔اپنی غلیظ زبان سے مجھے باپ نہ کہو۔۔۔ کیا کمی رہ گئی تھی ہماری محبت میں۔۔۔ مر گئیں تم ہمارے لیے۔۔۔ جاؤ۔۔۔جہاں سے آئی ہو وہیں واپس لوٹ جاؤ۔۔۔ میری غیرت گوارا نہیں کرتی کہ میں تمہیں دوبارہ اپنے گھر میں جگہ دوں۔۔۔
ایمان ہکا بکا کھڑی اپنے باپ کا منہ دیکھ رہی تھی۔۔۔
اس کے الفاظ اس کے گلے میں ہی پھنس کر رہ گئے تھے۔۔۔
سلیم اختر نے اسے کچھ بولنے کے قابل ہی نہ چھوڑا تھا۔۔۔
ابا مجھے ایک بار امی سے۔۔۔وہ رندھی ہوئی آواز میں بولی۔۔۔
بکواس بند کرو۔۔۔ وہ دوبارہ چلایا۔۔۔سارے رشتے تم خود ختم کر کے گئیں تھیں نا۔۔۔
اب جاؤ۔۔۔خوشی سے جاؤ۔۔۔
اور دوبارہ اس گھر کی دہلیز پر اپنے قدم نہ رکھنا۔۔۔
دروازہ ٹھک سے بند ہو گیا۔۔۔ اس ساری گفتگو میں بد قسمتی سے ایمان کی ماں کی یا نور کی آنکھ نہ کھلی تھی۔۔۔
وہ بند دروازے کو پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔۔۔وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ اس کے ساتھ کیا ہوا ہے۔۔۔ ایک لمحے میں اس کی ہنستی کھیلتی دنیا اجڑ گئی تھی۔۔۔قریب تھا کہ وہ چیخ چیخ کر پورا جہان سر پر اٹھا لیتی اور پوچھتی کہ میں کون ہوں۔۔۔؟ کیا ہوں۔۔۔؟ مجھے کس بات کی سزا ملی ہے۔۔۔اس کا واحد سہارا اکیلا آسرا۔۔۔اس کا باپ، جو کہ اس کی بات سننے کو تیار نہ تھا۔۔۔اور پھر فیصل۔۔۔جو اسے پہلے ہی دھوکا دے چکا ہے۔۔۔ اس بھری دنیا میں وہ جائے تو جائے کہاں ، رہنا تو بعد کی بات تھی۔۔۔ وہ چلنے لگی اور چلتے چلتے روڈ پر پہنچ گئی۔۔۔وہ چل رہی تھی اور اس بات سے بے خبر تھی کہ وہ کون ہے، کیا ہے، کہاں جا رہی ہے۔۔۔ اسے روڈ پر چلتے چلتے یہ بھی احساس نہ ہوا تھا کہ وہ کسی گاڑی کے آگے آ کر مرنے والی تھی۔۔۔ اگر گاڑی چلاتی ہوئی لڑکی نے فوراً بریک نہ لگائی ہوتی تو وہ جسمانی طور پر بھی اس دنیا سے جا چکی ہوتی۔۔۔
اس لڑکی نے پہلے سوچا شاید یہ نشے میں ہے۔۔۔پر جب وہ باہر نکلی تو اس کو دیکھ کر ایسا محسوس نہ ہوا۔۔۔ کون ہو تم؟ اور اس وقت یہاں کیا کر رہی ہو۔۔۔اس نے پوچھا
ایمان نے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔اس نے تو شاید سوال سنا بھی نہ تھا۔۔۔
اس نے ایمان کو گاڑی میں بٹھا لیا۔۔۔ اور اپنے سفر پر روانہ ہو گئی۔۔۔
___________________________
ایک بات سمجھ میں نہیں آئی۔۔۔
تو نے اس کو دو ہفتے وہاں رکھا ۔۔۔اور پھر جانے دیا۔۔۔ اب تو وہ کہیں بھی بھاگ جائے گی۔۔۔ اگر تو نے اس سے شادی نہیں کرنی تھی تو۔۔۔پھر یہ سارا کھیل کیوں کھیلا۔۔۔عمیر کے ایک دوست نے پوچھا تو اس کے منہ سے نکلا۔۔
بدلہ... 
عمیر بدلہ لے کر رہتا ہے یہ دنیا جانتی ہے میرے دوست۔۔۔
بدلہ۔۔۔کیسا بدلہ۔۔۔اس نے پوچھا
آج سے تین مہینے پہلے۔۔۔ میں نے ایمان سے کہا تھا کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں۔۔۔ اس نے کوئی جواب ہی نہیں دیا۔۔۔ اوئے مجھے جواب نہیں دیا اس نے۔۔۔
پھر کیا تھا۔۔۔میں نے بھی صاف کہہ دیا۔۔۔میری زندگی کا ایک رول ہے۔۔۔میں جس چیز پر اپنا ہاتھ رکھ دوں وہ ایسے بائے ڈیفالٹ میری ہو جاتی ہے۔۔۔وہ کسی پرلے درجے کے بدمعاش کی طرح چٹکی بجاتے ہوئے بولا۔۔۔ لیکن پھر معلوم ہے کیا ہوا؟ 
کیا ہوا۔۔۔اس کے دوست نے سے پوچھا۔۔۔
اس نے میرا ہاتھ ہی جھٹک دیا۔۔۔ سالی نے مجھے بے عزت کر دیا۔۔۔
میں نے بھی کہہ دیا کہ اگر میری محبت کا بدلہ تیری محبت نہ ہوئی تو پھر یاد رکھنا۔۔۔دنیا میں کہیں قدم رکھنے کے قابل نہیں چھوڑوں گا۔۔۔
لیکن یہ کیا۔۔۔اس نے یہ بات بھی اگنور کر دی۔۔۔میری محبت کو ٹھکرا کر۔۔۔ہوٹل میں فیصل کے ساتھ پارٹیاں کر رہی۔۔۔ اب محبت کا بدلہ تو صرف محبت ہوتا ہے تو جانتا ہے۔۔۔جس دن میں نے دیکھا کہ وہ اس کے ہوٹل میں اس سے مل رہی ہے۔۔۔تو میں نے سوچ لیا۔۔۔کہ اب وقت آ گیا ہے۔۔۔اگر اس نے میری محبت کا بدلہ نہیں دیا تو میں خود لے لوں گا۔۔۔سمپل۔۔۔اب تو اپنے حساب سے بتا۔۔۔ میں نے کیا کوئی غلط کیا۔۔۔عمیر کی بات ختم ہونے پر وہ اور اس کا دوست جنگلی جانوروں کی طرح ہنسنے لگے۔۔۔
___________________________
ڈاکٹر صاحبہ۔۔۔اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔کوئی فون کوئی اتا پتا کچھ نہیں۔۔۔ ایمان ہاسپٹل میں بے ہوش پڑی تھی اور وہ لڑکی اس کے پاس کھڑی لیڈی ڈاکٹر کو بتا رہی تھی۔۔۔اس نے چہرے پر ماسک پہن رکھا تھا۔۔۔
یہ آپ کو کہاں ملی۔۔۔
رات میں اسلام آباد سے واپس آ رہی تھی۔۔۔ وہاں یہ مجھے روڈ پر ملی۔۔۔اس وقت یہ ہوش میں تھی لیکن بے ہوش تھی۔۔۔
واٹ؟؟ ہوش میں تھی لیکن۔۔۔ڈاکٹر نے جھنجھلا کر پوچھا۔۔۔
یہ روڈ پر جا رہی تھی۔۔۔لیکن کچھ بول نہیں پا رہی تھی۔۔۔اور نہ ہی اپنی مرضی سے ہل جل سکتی تھی۔۔۔
یوں لگتا تھا کہ کوئی ریموٹ سے اسے کنٹرول کر رہا ہے۔۔۔
آپ کیا کہہ رہی ہیں؟۔۔۔مطلب یہ کیسی باتیں کر رہی ہیں آپ۔۔۔
بیلیو می ڈاکٹر۔۔۔ میں سچ کہہ رہی ہوں۔۔۔
اس کو کچھ دیر میں ہوش آ جائے گا۔۔۔آپ اس کو ابھی لے جا سکتی ہیں اگر چاہیں تو۔۔۔
نہیں میں ویٹ کر لیتی ہوں۔۔۔
ایک سیکنڈ۔۔۔ڈاکٹر وارڈ سے باہر جاتے جاتے رک گئیں۔۔۔
اگر یہ آپ کو رات کو ملی ہے تو آپ اسے یہاں اتنا لیٹ کیوں لے کر آئیں۔۔۔
اصل میں میری ایک ضروری میٹنگ تھی۔۔۔میں نے کوشش کی تھی کہ کینسل ہو سکے لیکن نہیں ہو پائی۔۔۔سو یہ میرے گھر میں ہی تھی شام تک۔۔۔
کیا کرتی ہیں آپ۔۔۔؟ 
اس نے چہرے سے ایک لمحے کے لیے ماسک ہٹایا اور دوبارہ لگا لیا۔۔۔
ارے۔۔۔کومل نایاب۔۔۔آپ؟ آپ نے پہلے کیوں نہیں بتایا۔۔۔ اتنی بڑی ایکٹریس اور اس طرح ہمارے ہاسپٹل میں۔۔۔
شش۔۔۔کومل نے ڈاکٹر کو خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔۔۔
دیکھیے میم یہ کیس آپ کے لیے خطرناک بھی ہو سکتا ہے۔۔۔آپ کو پولیس سے کنٹیکٹ کرنا چاہیے۔۔۔ ڈاکٹر صاحبہ۔۔۔میں پہلے اس سے اچھی طرح بات چیت کرنا چاہوں گی۔۔۔اس کے بعد اگر ضرورت پڑی تو پولیس کو انفارم کروں گی۔۔۔
اس لڑکی کے چہرے پر کوئی انوکھی داستان لکھی ہے جو میں پڑھ نہیں پا رہی۔۔۔وہی سننا چاہتی ہوں اس سے۔۔۔ کومل نایاب نے کہا۔۔۔
اوہ۔۔۔ دیکھیے اس کو ہوش آ گیا۔۔۔تھینک گاڈ۔۔۔اچھا۔۔۔میں اس کو ساتھ لے جا رہی ہوں۔۔۔
کچھ دیر میں کومل نایاب ایمان کو ساتھ لیے ہاسپٹل سے نکل رہی تھی۔۔۔

   1
0 Comments